اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی وزیر پانی و بجلی عمر ایوب کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو بجلی نہیں ملی لیکن آئی پی پیز کو پیسے ملتے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ رپورٹ کے مطابق ہر آئی پی پیز کو 159 ملین زائد ادائیگی کی گئی ہے اور آپ کیپسٹی پیمنٹ کرتے رہے ہیں۔
سیکرٹری توانائی نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم فیول اور کیپسٹی کی پیمنٹ کرتے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام کے کروڑوں روپے آئی پی پیز کو دے دیئے گئے وہ چاہے بجلی بنائیں یا نہ بنائیں۔ دنیا بھر میں اس طرح کے معاہدے منسوخ کیے جا رہے ہیں۔
سیکرٹری محکمہ توانائی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بجلی لیں یا نہ لیں لیکن معاہدے کے تحت کیپسٹی پیمنٹ کرتے رہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کروڑوں اربوں روپے ایسے ہی ادا کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ تو ڈارلنگز ہیں، صنعتوں اور لوگوں کو بجلی نہیں ملی لیکن آئی پی پیز کو پیسے ملتے رہے ہیں۔
سیکرٹری پاور ڈویژن نے مؤقف اختیار کیا کہ این پی سی سی سستے فیول سے چلنے والے پلانٹس کو ترجیح دیتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اس کیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے تو سیکرٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ ہم آپ کو پریزنٹیشن دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں نے ایک پریزنٹیشن بنا رکھی ہو گی اور وہی وزیر اعظم کو دیتے ہوں گے۔ وزیر بجلی کو فوری طلب کیا جائے۔
سیکرٹری پاور ڈویژن نے عدالت سے پیر تک وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پریزینٹیشن کے لیے پیر تک وقت چاہیے۔ جس پر عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔