تین  معصوم کشمیریوں کی زندگی کے 23 سال اندھے بھارتی قانون کی نذر


تین  معصوم کشمیریوں کی زندگی کے 23 قیمتی سال اندھے بھارتی قانون کی نذر ہو گئے، 23 سال قبل بھارت میں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کشمیریوں کو اب بے گناہ قرار دے کر رہا تو کر دیا گیا لیکن ان کی زندگی، مستقبل اور خاندان سب اجڑ کر رہ گیا ہے۔

یہ کہانی ہے مقبوضہ کشمیر کے رہائشیوں محمد علی بٹ، لطیف وازہ اور مرزا نثار کی جو تئیس سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد گھر لوٹے تو ان کے اپنوں کے کئی چہرے ان کے استقبال کے لیے موجود نہ تھے۔

انیس سو چھیانوے میں سری نگر کے رہائشی تینوں نوجوان کاروبار کے سلسلے میں نیپال میں موجود تھے جب نئی دلی کے دو علاقوں میں بم دھماکے ہوئے۔

بھارتی فورسز نے تینوں کو نیپال سے گرفتار کیا اور بھارت میں ان کے خلاف مقدمات کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔ تئیس سال تک قید کی مشکلات برداشت کرنے اور مقدمات سے گزرنے کے بعد جے پور ہائی کورٹ نے انہیں بے گناہ قرار دے دیا۔

بے گناہ قرار دیئے جانے کے بعد تینوں گھر لوٹے تو ان کی دنیا بدل چکی تھی۔انچاس سالہ محمد علی بٹ گھر پہنچے اور پھر اپنے والدین کی قبروں کی زیارت کے لیے گئے۔

محمد علی جس طرح سے اپنے والدین کی قبروں سے لپٹ کے روئے اسے دیکھ کر ہر شخص کی آنکھ اشکبار ہوگئی۔

چوالیس سالہ لطیف وازہ اور 40 سالہ مرزا نثار کا کہنا ہے کہ وہ جیل سے تو رہا ہو چکے ہیں لیکن اب ان کے لیے زندگی بے مقصد ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسئلہ کشمیر:امریکہ سے مدد مانگنا خوشی کا باعث ہے،فاروق عبداللہ


متعلقہ خبریں