کراچی: ماہر قانون بیرسٹر افتخار احمد نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے دو دشمنوں افتخار چوہدری اور نواز شریف نے اپنا بدلہ لے لیا، آج کا فیصلہ مکمل طور پر بغض، عناد اور دشمنی پر مبنی ہے۔
ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آنے والے فیصلے نے فوجی جوانوں کا مورال گرا ہے۔ فیصلے سے لگتا ہے بڑی جلدی میں فیصلہ کیا اور آج آئین و پاکستان کے ساتھ کہلواڑ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی اور اس مقدمے میں صرف پرویز مشرف کو رکھا گیا تھا جبکہ ان کے ساتھیوں کو مقدمے سے نکال دیا گیا۔ پرویز مشرف کے خلاف آنے والا فیصلہ ذاتی انا نظر آتی ہے کیونکہ فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف نے ججز کو نظر بند کیا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا کہ پاکستان کے مضبوط قلعے کی مضبوط بنیاد پاک فوج ہے لیکن اگر اس بنیاد سے کچھ اینٹیں گر گئیں تو پاکستان کو کہاں کھڑا کریں گے ؟ کیا عدلیہ کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے ؟ گزشتہ روز آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے آنے والے فیصلے میں بھی پاک فوج کا مذاق بنانے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک کو لوٹنے والے جنہوں نے اس ملک کو کھوکھلا کر دیا انہیں تو سپریم کورٹ نے باہر جانے کی اجازت دے دی لیکن جنہوں نے اس ملک کے لیے قربانیاں دیں عدالت انہیں سزا دے رہی ہے۔ جس جنگ کو ہم سب نے مل کر لڑنا تھا اس کے برعکس ہم آپس میں ہی الجھ رہے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ نواز شریف اپنی ذاتی عناد سے باہر نہیں نکل سکے۔ فوج کے پاس تو ہمیشہ ہی بندوق رہے گی اور ان کا مارشل لا جنرل ضیا سے بھی آگے نکل سکتا ہے۔ کراچی میں 300 افراد کو جلا کر قتل کر دیا گیا اس وقت عدلیہ کہاں تھی ؟
تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے کہا کہ ہماری فوج نے ہر ہر محاذ پر قربانیاں دی ہیں لیکن اس کے باوجود نہ صرف سابق آرمی چیف کے خلاف فیصلہ آیا بلکہ موجودہ آرمی چیف کو بھی عدالت میں گھسیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر فوج کمزور ہو گی تو فیڈریشن بھی کمزور ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے بھی پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کے ذریعے اپنی ذاتی دشمنی نکالی تھی۔ اس تمام معاملے کو بڑے محتاط انداز سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی فوج نے ہمیشہ عدلیہ کا ساتھ دیا ہے لیکن ایک ماہ سے عدلیہ کی جانب سے جو معاملات چلے ہیں وہ مکمل طور پر درست نہیں ہیں۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے کہا کہ سیاست میں مزید محاذ آرائی بڑھتی نظر آ رہی ہے اسے بھی عدلیہ کو سامنے رکھنا چاہیے تھا۔ ویسے ہی لوگوں میں بے دلی نظر آ رہی ہے۔ آپ جمہوریت کو اچھے انداز میں چلائیں گے تو فوج کو آپ کے معاملات میں مداخلت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا کام ریفارم لانا ہے اس وقت مقدمات کی صورتحال بہت بری ہے جو کئی کئی عرصے تک مقدمات چلتے ہیں، ہمیں نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس فیصلے سے جمہوریت بہت کمزور ہو گی۔
دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ حکمران ملک سے پیسہ لوٹتے ہیں اور باہر نکل جاتے ہیں لیکن عوام کو خوش کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے لیکن حکمرانوں سے مایوس ہونے کے بعد عوام پھر عسکری قیادت کی جانب دیکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ چیزیں ملکی مفاد میں دیکھنی چاہیئیں، بھارت نے بابری مسجد کا فیصلہ غلط دیا لیکن انہوں نے ہندوتوا کے حق میں اقدام اٹھایا۔
ماہر قانون بیرسٹر افتخار احمد نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں جو صدر کے خصوصی اختیارات تھے ان سب کو 18 ویں ترمیم کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا۔ جو لوگ کہتے ہیں پرویز مشرف غداری کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں کہ مشرف نے آئین کے ماتحت فیصلے کیے۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے جس آئین کو معطل کیا تھا اسے سپریم کورٹ نے درست قرار دیا تھا۔ پرویز مشرف نے سپریم کورٹ اور آئین کے احکامات پر عملدرآمد کیا تھا۔
ماہر قانون نے کہا کہ پرویز مشرف کے دو دشمنوں افتخار چوہدری اور نواز شریف نے اپنا بدلہ لیا ہے اور آج کا فیصلہ مکمل طور پر بغض، عناد اور دشمنی پر مبنی ہے۔ مقدمے کو چلانے کے لیے سیاسی بنیادوں پر ججز کو آگے لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کا ٹرائل تو قانون کے مطابق ہوا ہی نہیں ہے۔ ہم کسی سے کہہ بھی نہیں سکتے کہ پاکستان میں ایک ایسا ٹرائل بھی ہوا جس میں ملزم کو سنے بغیر ہی موت کی سزا دے دی گئی۔ یہ فیصلہ نہیں بلکہ ایک بلڈوز ویو ہے جو اپنے آپ کو تاریخ میں لکھوانے کے لیے کیا گیا۔ اس فیصلے کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے۔
بیرسٹر افتخار احمد نے کہا کہ جب ملزم عدالت میں موجود ہی نہ ہو تو قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہی نہیں ہو سکتی تاہم گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جا سکتے ہیں۔ ایگزیکٹیو اور جوڈیشری کے درمیان ٹکراؤ نظر آ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے قانون سازی پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس پر الزامات لگ رہے ہیں عدالت کو چاہیے کہ اسے بولنے کا موقع دے اور مکمل قانونی کارروائی کرے عدلیہ کو سیاسی نہیں ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں افواج پاکستان کا مورال بلند رکھنا قومی فریضہ ہے، فردوس عاشق اعوان
پرویز مشرف کے قریبی ساتھی اور سابق سربراہ پی این سی اے نعیم طاہر نے کہا کہ مجھے اس فیصلے سے بے حد مایوسی ہوئی ہے۔ آج بہت سے کالے اعمال نظر آئے تاہم مجھے امید ہے سپریم کورٹ آئندہ ایسا فیصلہ دے گی جس میں پرویز مشرف کو بری کر دیا جائے گا اور انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ جس پاکستان کو دہشت گرد سمجھا جاتا ہے اس میں جنرل پرویز مشرف نے انتہائی اہم فیصلے کیے۔ پرویز مشرف کے معاملے پر فوج کا رد عمل آ چکا ہے جس پر بہت سے لوگ متفق ہیں۔