اس وقت تمام بڑی قومیں وسیع کائنات کے راز کھوجنے میں سرگرداں ہیں، اس کے ان کے درمیان ساتھ ساتھ مستقبل قریب میں خلا میں برتری حاصل کرنے کی دوڑ بھی جاری ہے۔
اس سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت امریکہ کی جانب سے سپیس فورس (خلائی فوج) کے قیام کی صورت میں سامنے آئی ہے جس کا آغاز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا ہے۔ گزشتہ ستر سالوں میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی امریکی فوج ہے۔
امریکی صدر نے 2020 کے نیشنل ڈیفنس آتھوریزیشن ایکٹ پر دستخط کر دیے ہیں، فوج کی تیاری اس ایکٹ کا اہم حصہ ہے۔
اس موقع پر صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے امریکی سیکیورٹی سے متعلق اپنی سب سے بڑی ترجیحات میں سے ایک میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
واشنگٹن سے باہر جائنٹ بیس اینڈریوز پر دستخط کی تقریب کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ خلا ترقی یافتہ اقوام کے درمیان نیا جنگی میدان بنتا جا رہا ہے اور یہ ہماری قومی سلامتی کے لیے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ خلائی میدان میں امریکی برتری بنیادی اہمیت رکھتی ہے، اگرچہ ہم اس میں باقیوں سے کسی حد تک آگے ہیں لیکن یہ ناکافی ہے، بہت جلد ہم دیگر ممالک پر فیصلہ کن برتری حاصل کر لیں گے۔
بعد ازاں فلوریڈا پہنچنے کے بعد صدر ٹرمپ نے قانون پر دستخط کیے جس کے بعد حکومت کی جانب سے اس پراجیکٹ کے لیے 30 ستمبر پر رقوم کی فراہمی یقینی ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران خلائی پروگرام پر بہت زور دیا تھا، امریکی فوج کے لیے بھی یہ اطمینان بخش پہلو ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے خلا میں امریکی مفادات کا تحفظ ممکن ہو پائے گا۔
خیال رہے کہ اس مرحلے پر مجوزہ فوج کی تشکیل کا مقصد خلا میں فوجی دستے بھیجنا نہیں ہے۔
سیکرٹری دفاع مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ خلا سے متعلقہ صلاحیتوں پر ہمارا انتحصار بہت تیزی سے بڑھا ہے اور موجودہ حالات میں بیرونی خلا نے جنگی میدان کی صورت اختیار کر لی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خلا میں برتری کو برقرار رکھنا اس فوج کا مشن ہو گا۔
اس وقت خلا نہ صرف امریکی معیشت میں اہمیت حاصل کر چکا ہے بلکہ روزمرہ کی زندگی بھی اس سے جڑی ہوئی ہے۔
گلوبل پوزیشننگ سسٹم نہ صرف افواج کے لیے بلکہ عوام کے لیے بھی سمت کی نشاندہی میں مدد کرتا ہے۔
مدار میں گھومنے والے تقریباً دو درجن مصنوعی سیاروں کا انتظام کولراڈو کے امریکی فضائیہ کے اڈے سے چلایا جاتا ہے۔
یہ منصوبہ 1400 ارب ڈالر کے اس پراجیکٹ کا حصہ ہے جس میں پینٹاگون پر خرچ ہونے والا بجٹ اور امریکہ اور میکسیکو کے درمیان باڑ پر کام بھی شامل ہے۔
فروری میں پنٹاگون نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ چین اور روس نے ایسی ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششیں شروع کر دی ہیں جن کے ذریعے کسی لڑائی کی صورت میں وہ امریکی اور ان کے اتحادیوں کے مصنوعی سیاروں میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں یا انہیں تباہ کر سکتے ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ خلا میں کام کرنے کی امریکی آزادی کو سنجیدہ اور بڑھتے ہوئے خطرات لاحق ہیں۔
جون 2018 میں صدر ٹرمپ نے پینٹاگون کو حکم دیا تھا کہ وہ خلائی فوج کی تیاری کا کام شروع کر دیں۔ اس موقع پر انہوں نے اس کام کو خلا میں امریکی برتری حاصل کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ قرار دیا تھا۔
کئی ڈیموکریٹس نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی لیکن صدر ٹرمپ اپنے عزم پر ڈٹے رہے۔
فوج کا یہ نیا شعبہ بحریہ، بری فوج یا فضائی افواج کی طرح کوئی الگ شعبہ نہیں ہو گا بلکہ سیکرٹری فضائیہ اس کا انتظٓم سنبھالے گا۔
امریکی قوانین کا تقاضا ہے کہ فور اسٹار جنرل، جو چیف آف سپیس آپریشنس کے نام سے اس فوج کی قیادت کرے گا، وہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا ایک رکن ہو گا۔
البتہ یہ بات امریکی صدر نے واضح کر دی تھی کہ پہلے برس اس فوج کی قیادت ایئر فورس جنرل جان ڈبلیو ریمنڈ سنبھالیں گے۔
1947 تک فضائیہ بھی امریکی بری فوج کا حصہ ہوا کرتی تھی، بعد ازاں اسے الگ سے ایک محکمہ بنا دیا گیا تھا۔
دیگر فوجی محکموں کے مقابلے میں خلائی فوج بہت مختصر ہو گی، شروع میں یہ صرف 200 افراد پر مشتمل ہو گی اور اس کا پہلے سال لا بجٹ 4 کروڑ ڈالر ہے۔
اس وقت امریکہ کی بری افواج میں 4لاکھ اسی ہزار فوجی اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور ان کا سالانہ بجٹ تقریباً 181 ارب ڈالر ہے۔
پینٹاگون سالانہ 14 ارب ڈالر خلا سے متعلق آپریشنز پر خرچ کرتا ہے، اس کا زیادہ تر حصہ فضائیہ کے بجٹ میں شامل ہے۔