اسلام آباد: سرائیکی لوک سانجھ نے کہا ہے آج اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ملکی اشرافیہ سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے.
ایک بیان میںسرائیکی لوک سانجھ نے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم نے نہ صرف 1973 کے آیین کو اصل شکل میں بحال کیا بلکہ سرائیکی صوبہ کیلیئے پارلیمانی راستہ بھی ہموار کردیا. اسی سرائیکی صوبہ اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بنیادی ربط کی وجہ سے پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کیلئے پارلیمانی کمیشن بنا۔
سرائیکی لوک سانجھ کی وسیب کونسل نے اس وقت اٹھارہویں ترمیم کو واپس کرنے کی بحث کے حوالے سے اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ سرائیکی لوک سانجھ وفاقیت اور طاقت کی نیچلی سطح پر منتقلی پر پختہ یقین رکھتی ہے کیونکہ مرکزی نظام حکومت کثیر القومی ملک کو متحد نہیں رکھ سکتا. اور یہ تاریخی آئینی ترمیم کثیرالثقافتی تنوع کی اصل روح ہے.
بیان کے مطابق اٹھارہویں آئینی ترمیم وفاقی اکائیوں کو وہ حقوق دے رہی ہے، صوبے جن جایز حقوق کا مطالبہ اور کوشش پاکستان بننے سے ہی کررہے تھے. اصل میں اٹھارہویں ترمیم مظلوم (سندھی، بلوچ اور پشتون) قوموں کو مظبوط قانون ساز طاقتیں اور معاشی خود مختاری دینے کا آئینی پیکیج ہے. اس ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا ہے.سرائیکیوں کو آج مظلوموں قوموں کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کیلئے ان کی مدد لی جا سکے.
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہمسایہ قوموں کی مدد کے بغیر سرائیکی صوبہ کا وجود ناممکن دکھائی دیتا ہے. دوسری طرف پاکستان جمہوری منتقلی کے مرحلے میں ہے جہاں کمزور جمہوریت کی ایک تاریخ ہے. اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کے نتائج خطرناک ہوں گے، ایسا کرنے سے ملک مزید کمزور ہوگا. اس لیے سرائیکی لوک سانجھ نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ سے اپریل 2010 میں پاس ہونے کے بعد سے سپورٹ کیا. سرائیکیوں کا جمہوریت اور صوبائی خود مختاری پر پختہ یقین ہے، اس لیے سرائیکی لوک سانجھ نے 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کو سرہانے اور سرائیکی صوبہ کے مطالبہ کیلئے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے ریلی نکالی.
بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن اور دوسرے آیینی مالیاتی انتظامات کے بغیر سرائیکی صوبہ بننے سے خاص فائدہ نہیں ہوگا. اٹھارہویں آئینی ترمیم تمام صوبوں کے مالیاتی حقوق کو قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کرتی ہے