پیانگ یانگ:شمالی کوریا کے نائب وزیر خارجہ چوسون وی نے امریکی نائب صدر کی جانب سے ملنے والی دھمکی کے جواب میں کہا ہے کہ لیبیا جیسا نہ بننے کے لیے ہم نے بھاری قیمت ادا کرکے ایٹمی پروگرام بنایا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ امریکہ کو ایسے ہولناک سانحے کا مزہ چکھا سکتے ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی کے سی این اے میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں چوسون وی نے کہا ہے کہ امریکہ ہم سے میٹنگ روم میں ملنا چاہتا ہے یا ایٹمی جنگ کے میدان میں، یہ امریکہ پر منحصر ہے۔ انہوں نے نائب امریکی صدر کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مائیک پنس جیسا سیاسی نقال شمالی کوریا کا موازنہ لیبیا سے کررہا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر امریکہ ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتا توہم اسے قائل بھی نہیں کریں گے اور نہ مذاکرات کی بھیک مانگیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ سے مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ ہم نے نہیں کیا تھا۔ شمالی کوریاکے نائب وزیرخارجہ چوسون وی نے دعویٰ کیا کہ امریکی نائب صدر دراصل عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
نائب امریکی صدر مائیک پنس نے شمالی کوریا کو خبردار کیا تھا کہ فوجی آپشن ختم نہیں ہوا ہے اوراس کا انجام لیبیا جیسا ہوسکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ کے درمیان 12 جون کو سنگاپور میں ملاقات طے ہے۔ شمالی کوریا کا اس ضمن میں اصرار ہے کہ اگر امریکہ نے یک طرفہ طور پر جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کا اصرار کیا تو وہ ملاقات سے دستبردار ہوجائے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ ملاقات سے قبل شمالی کوریا کو کچھ شرائط پر عمل کرنا ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو شاید ملاقات بعد میں کبھی ہو۔
امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کم جونگ کے درمیان ملاقات کرانے کا قدم اٹھانے والے سی آئی اے کے سابق سربراہ مائک پومپیو ابھی بھی پرامید ہیں کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہو سکتی ہے۔ امریکہ کے موجودہ سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو نے ملاقات کا مقام طے کرنے کے لیے ایسٹر کے موقع پر پیانگ یانگ کا خفیہ دورہ بھی کیا تھا۔
کم جونگ نے ٹرمپ کے ساتھ متوقع ملاقات کی خبریں منظر عام پرآنے کے بعد اپنے جوہری اور بین البراعظمی میزائل تجربات پر پابندی عائد کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ شمالی کوریا نے اس قدم کو جذبہ خیرسگالی کا مظہر قرار دیا تھا۔
شمالی کوریا کے سربراہ نے ٹرمپ سے ملاقات پر آمادگی کا اظہار اپنے خفیہ دورہ چین کے بعد کیا تھا۔ انہوں نے جنوبی کوریا کے ساتھ روایتی دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنے کے لیے سیؤل سے گرمجوشی سے ہاتھ بھی ملائے تھے۔ جنوبی کوریا کا جواب بھی والہانہ تھا۔
واشنگٹن اور پیانگ یانگ کے مابین تعلقات میں تلخی اس وقت آئی جب شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کے سات اعلیٰ سطحی مذاکرات یہ کہہ کر منسوخ کردیے کہ اس کی امریکہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں اشتعال انگیز ہیں اور حملے کی تیاری کا مظہر بھی ہیں۔
شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان جب تعلقات کی برف پگھلنے لگی تو واشنگٹن نے یہ پیشکش کی کہ اگر پیانگ یابگ اپنا جوہری پروگرام تلف کردے تو وہ شمالی کوریا کی معیشت بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ امریکہ نے تجارت کی بھی پیشکش کی تھی۔
21 مئی کو شمالی کوریا نے امریکی پیشکش مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن سے تجارت نہیں کریں گے۔