چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فل کورٹ تشکیل دینے کی حکومتی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا نا ممکن ہے، یہ کیس تعطیلات کے دوران مقرر ہوا، تعطیلات کے دوران ججز دستیاب نہیں ہوتے۔
سپریم کورٹ میں آج فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ درخواست میں میری 5 معروضات ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عابد زبیری سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ جو بات کرنا چاہے کر سکتے ہیں۔ عابد زبیری نے کہا کہ عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ آرمی ایکٹ کے تحت شہریوں کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کیلئے کوئی چھڑی نہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
عابد زبیری کا کہنا تھا کہ جسٹس اجمل میاں کے فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف فوجی اہلکاروں کا ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلنز کے ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم درکار ہوگی۔ 21 ویں آئینی ترمیم کیس میں قرار دیا گیا کہ ایسا قانون لاگو نہیں ہو سکتا جس سے بنیادی حقوق معطل ہوں۔
عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 21 ویں آئینی ترمیم فیصلے میں قرار دیا کہ فوجی عدالتیں سویلینز کے ٹرائل کیلئے نہیں ہیں۔ میری درخواست میں آرٹیکل 245 کے تحت افواج طلب کرنے کا معاملہ بھی ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ عدالت نے ایف بی علی کیس میں کہا کہ سویلین دفاعی معاملات میں ملوث نکلے تو ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے۔ جو شہری افواج کی تحویل میں ہیں ان کا ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے سوال کیا کہ آپ کے مطابق سویلنز کو آئینی تحفظ ہے اور فوجی ٹرائل کیلئے دفاع یا افواج کے خلاف تعلق جڑنا ضروری ہے؟ کیا سویلنز کے فوجی ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ہونا ضروری ہے یا دفاع یا افواج کے خلاف تعلق جوڑنا؟
وکیل عابد زبیری نے موقف اختیار کیا کہ پہلے سویلنز کا فوج یا دفاع کے خلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے۔ اگر ملزمان کا فوج یا دفاع سے کوئی تعلق ہے تو پھر فوجی ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ناگزیر ہے۔
قانون کی بار بار تشریح کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں، چیف جسٹس
عدالت کا کہنا تھا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے، یہ اس وقت کے ہیں جب فوجی ٹرائل سے متعلق آئینی ترمیم نہیں ہوئی تھی۔ جس پر درخواست گزار عابد زبیری نے کہا کہ ماضی میں ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کی اجازت مخصوص وقت کیلئے دی گئی تھی۔
درخواست گزار نے کہا کہ عام شہریوں کا آرٹیکل 175 کے مطابق ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں۔ اگر شہری ملکی دفاع کے خلاف کام کریں تو پھر کیا ہوگا؟
عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف شہری ملوث پائے جائیں تو پھر بھی آئینی ترمیم لازمی ہے۔ خصوصی عدالتوں کے قیام کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کی نظر میں کورٹ آف لاء کی کیا تعریف ہے؟
عابد زبیری نے جواب دیا کہ کورٹ آف لاء وہ ہے جہاں ملزمان کو فیئر ٹرائل اور وکیل کا حق ملے۔ ملزمان کو سزاوں کے خلاف ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ کیا ملزمان کو فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف آئینی درخواست دائر کرنے کی اجازت ہوگی؟
فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی جائیں ، وفاق کا سپریم کورٹ میں تحریری جواب
سماعت کے دوران جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سویلین کا ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہو؟ اگر سول عدالتوں میں چارج لگایا جائے تو معاملہ فوجی عدالتوں کو بھیجا جا سکتا ہے؟ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ ٹرائل پہلے سول عدالتوں میں ہونا چاہیے، معلوم نہیں گرفتار افراد پر فوجی عدالتوں میں چارج فریم ہو چکا ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میری چیف جسٹس پاکستان سے استدعا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔ حکومت نے بینچ پر اعتراض کیا تومجھے حیرانی ہوئی۔