اسلام آباد: 21 لاکھ آبادی کا شہر ہونے کے علاوہ وفاقی دارالحکومت ہونے کا اعزاز رکھنے والے اسلام آباد کے مکین برسوں سے پانی کی عدم دستیابی جیسے بنیادی مسئلے کا شکار ہیں جو مزید سنگین ہو گیا ہے۔
ہم نیوز کی جانب سے لیے گئے جائزے کے دوران واضح ہوا کہ پانی کا بحران گرمی کی شدت میں اضافہ کے ساتھ سنگین شکل اختیار کر گیا ہے۔ مضافاتی آبادیاں ہی نہیں بلکہ مرکزی پوش علاقے بھی پانی نہ ہونے کے بحران کا شکار ہوئے ہیں۔
اسلام آباد کے انتظام و انصرام کے اداروں کا تسلیم کرنا ہے کہ 120 ملین گیلن روزنہ کی طلب والے شہر کو صرف61 ملین گیلن پانی پر بہلایا جارہا ہے۔
شہر اقتدار میں ہرطرف پانی پانی کی صداؤں پر اسلام آباد میٹروپولیٹن کارپوریشن (آئی ایم سی) ذرائع نے تسلیم کیا ہے کہ 194 ٹیوب ویلز میں سے 160 اور 34 ٹینکروں میں سے 22 ٹینکرز پورے شہر کو پانی فراہم کر رہے ہیں۔
پانی کے بحران کی تاویل کرتے ہوئے میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد نے برسوں پرانا جواز دہراتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ حل کرنے کے لیے متبادل منصوبوں پر غور کیا جا رہا ہے۔ جس کے تحت تربیلہ ڈیم سے پانی کی فراہمی کے لیے حکومت نے 50 کروڑ روپے منظور کیے ہیں۔
تربیلہ ڈیم سے پانی کی فراہمی کے منصوبے کے تحت 100 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
میٹروپولیٹن کارپوریشن کا دعوی ہے کہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نجی واٹر ٹینکرز سے اشتراک کیا جا رہا ہے۔ مگر یہ بات تاحال طے ہونا باقی ہے کہ اس عمل کی نگرانی کون کرے گا تاکہ طے شدہ قیمتوں پر پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔
سی ڈی اے یا آئی ایم سی کے دعووں سے اختلاف کرتے ہوئے شہری حلقے اعتراض کرتے ہیں کہ جو پانی واٹر ٹینکرز کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے وہ سپلائی لائنز کے ذریعے کیوں نہیں مہیا کیا جا سکتا۔
ہم نیوز کے نمائندہ اسلام آباد نعمان مقصود کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں پانی کا مسلہ نیا نہیں، کئی حکومتیں آئیں لیکن کوئی بھی آج تک اس بحران کو حل نہیں کرسکا۔
انتظامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی 21 لاکھ کی آبادی کو پانی فراہم کرنے کے لیے دو ڈیمز موجود ہیں۔
زمینی صورتحال یہ ہے کہ سملی ڈیم سے پانی کی فراہمی 24 اعشاریہ پانچ اور خانپور ڈیم سے 70 فیصد کمی کے بعد آٹھ سے کم کرکے تین ملین گیلن کر دی گئی ہے۔
سی ڈی اے کے زیرانتظام سیکٹرز میں پانی فراہمی کے متبادل زرائع میں 160 ٹیوب ویلز اور 39 واٹر فلٹریشن پلانٹس شامل ہیں۔ واٹر فلٹریشن کے ایک پلانٹ سے چار سیکٹرز یعنی 54 ہزار کی آبادی کو پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
انتظامی سطح پر فراہم کیے گئے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ آبادی کے تناسب سے ایک ٹینکر ایک لاکھ اور ایک ٹیوب ویل 13 ہزار ایک سو 25 افراد کی پانی کی کمی پوری کرنے کی ناکام سعی کر رہا ہے۔
اسلام آباد کے وہ علاقے جو سی ڈی اے کے دائرہ کار میں نہیں آتے بلکہ دیگر سرکاری اداروں کے زیرانتظام ہیں ان میں پانی کا بحران زیادہ سنگین ہے۔
جی 13 اور جی 14 سیکٹرز وزارت ہاؤسنگ کے ادارے فیڈرل ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف ای ایچ اے) کے ماتحت ہیں، ان سیکٹرز میں بیشتر مقامات ایسے ہیں جہاں تین تا چار ٹیوب ویل روزمرہ پانی کی فراہمی کا اکلوتا ذریعہ ہیں۔ ان ٹیوب ویلز سے ہفتے میں ایک دن پانی فراہم کیا جاتا ہے، بیشتر اوقات وہ بھی نہیں کیا جاتا۔
متبادل انتظام کے طور پر ایف ای ایچ اے شکایت درج کروانے کا کہتی ہے جس کے بعد روزانہ 50 تا 60 افراد کو رعایتی نرخوں پر پانی کا چھوٹا ٹینکر فراہم کیا جاتا ہے۔ 60 سے زائد شکایت کنندگان کو پانی نہیں دیا جاتا جو یہی ٹینکر 1400 سے 2000 روپے میں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔